آپ اپنے لئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں خواہ وہ اپنی صحت کے لئے صرف واک کا ارادہ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ اپنے بچے کے لئے آدھے گھنٹے کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔۔اپنی خوشی کے لئے ایک کپ کافی علیحدہ سے۔۔۔یا اپنے علمی اضافے کے لئے لائبریری کا ایک چکراور وہ بھی اپنی دن بھر کی بنیادی ذمہ داری کی ادائیگی کے بعد۔۔۔ لیکن آپ توقع کر رہے ہیں کہ سراہا جائے گا ۔۔۔۔لیکن معاملہ الٹ ہوتا ہے اور یہاں تو یلغار ہو جاتی ہے سوالوں کی۔۔۔۔مثالیں دی جاتی ہیں اردگرد کی خواتین کی جو ہلتی جلتی بھی نہیں گونگوں کی طرح ، روبوٹ کی طرح بس مانتے ہی چلی جاتی ہیں اپنی ذات کا حصہ نکالے بغیر تو ایسے میں پہلے تو گھبرانا نہیں ہے

۔

ہوتا یہ ہے کہ چونکہ ہم تیار نہیں ہوتے ذہنی طور پر کسی بھی ایسے ری ایکشن کے تو فوری طور پہ اپنے قدم روک لیتے ہیں یا پھر دب جاتے ہیں یا اگر با اعتماد ہوں اور اپنی صلاحیتوں کو اور اپنی ذات کی ذات کے حق کو پہچانتے ہوں تو پھر ریزسٹ resist کرتے ہیں اب یہاں پہ دو باتیں ہیں کہ یا تو اندر ہی اندر کڑھنا شروع کر دیں اور اس چیز سے رک جائیں اور وہ اندر ہی اندر کڑھنا آپ کے اندر ایک غبار اور ایک لاوا بھر دے کہ اپ اپنے اظہار نہ کر سکیں اور بظاہر ان تمام حقوق سے دستبردار ہو جائیں جو اپ کے ذاتی اور بنیادی حقوق ہیں یا پھر اپ ان کا جواب دیں اور بات کو ٹالنے کی بجائے دو ٹوک انداز میں میدان میں اتر ائیں

ابھی ہم بات کریں گے پہلی شخصیت کی جو اپنی حقوق سے دستبردار بھی ہو جاتے ہیں لیکن اپنے اندر ایک بہت زیادہ لاوا بھی پکنے دیتے ہیں اس کے نتیجے میں جو شخصیت بنتی ہے اس کا اثر بچوں پہ نظر اتا ہے ماں کی اپنی جھنجھلاہٹ اور کنفیوژن بچوں کے مزاج کو بھی متاثر کرتی ہے چونکہ ماں اپنے لیے کوئی سٹینڈ لینا نہیں جانتی لہذا وہ بچوں کے اندر اس چیز کے نیگیٹو اثرات کو منتقل کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے اور اگر یہ کام لمبا عرصہ چلتا رہے تو عورت ایک مظلومیت کی تصویر تو بن جاتی ہے لیکن اواز بلند کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی حتی کہ جب وہ خود پاور گروپ بن جاتی ہے تو اکثر اوقات ہمیشہ نہیں لیکن عموما وہ اپنا بدلہ انے کمزور سے لینا شروع کر دیتی ہے

۔دوسری صورت جو ایک با اعتماد شخصیت کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے ڈٹنا جانتی ہے لیکن الفاظ کے درست چناؤ کا یا موقع محل کی نزاکت کا اندازہ کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا کیونکہ وہ نو سننے کی عادی نہیں ہوتی ایسی صورت میں عموما بہت جلد تابڑ توڑ حملوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور فوری طور پر کسی بھی جانب سے کوئی ری ایکشن ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ ایسا انسان اپنا حق لینا تو بخوبی جانتا ہے لیکن ترجیحات کا تعین کرنا نہیں اتا اور جلد بازی کا نتیجہ بھی پھر کچھ اچھا نہیں نکلتا ۔

اس کے برعکس اگر انسان متحمل مزاجی سے ان چیزوں کو ڈیل کرنے کا طریقہ سیکھیں

نمبر ایک کہ وہ اپنی ان عادات کو برقرار رکھے لیکن ارد گرد کی مخالفت کو نظر انداز کرتا جائے

مخالف نظریے کو سن لے لیکن اس پہ کسی بھی قسم کا ری ایکشن فوری طور پہ دینے سے گریز کریں

جب اپ اپنی بہترین عادات کو یا اپنی روٹین کو برقرار رکھتے ہیں تو دو دن تین دن چار دن اپ کے ساتھ معاملہ مخالفت کا درپیش تو ہوتا ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اپ کی ڈیٹرمینیشن آپ کو ہی اول رکھتی ہے اور پھر اہستہ اہستہ یہ چیز تسلیم کر لی جاتی ہے کہ اپ کے بنیادی حقوق پر کسی کو بولنے کا اختیار نہیں لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ اس وقت جب اپ اپنے اوپر طعن و تشنیع سنیں تو کوئی ری ایکشن نہ دیں اور اپنے دماغ کو یہ سگنل دیتے رہیں کہ یہ سب گزر جائے گا اور یہ وقتی ہے مجھے خاموش ہی رہنا ہے لیکن اپنا میدان نہیں چھوڑنا

اس کے لیے ایک اور بھی چیز ضروری ہے وہ یہ کہ اپنے اپ کو پوزیٹو thoughts سے پوزیٹو لوگوں سے اور ایکٹیوٹیز سے مسلسل چارج کیا جاتا رہے اس طرح ایک vent out ملنے کی صورت میں ایک معتدل شخصیت وجود میں اتی ہے اور انسان کے اندر نیگٹیوٹی سرایت نہیں کرتی ضروری

یہ ہے کہ ہمارے اندر باہر کے حالات تلخی نہ گھولیں۔ترجیحات کا تعین کہ وقتی طور پہ کیا زیادہ اہم اور ضروری ہے اور کیا بعد میں ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ۔۔۔ اس کا واضح خاکہ ہونا اتنا اہم ہے جتنا کھانے میں نمک کا تناسب۔۔۔۔ اور میٹھے میں چینی کی مقدار!اپنے لیے کسی بھی قسم کا سٹینڈ لینے کے لیے اکثر ہمارے پاس جو بہانہ ہوتا ہے وہ کسی بھی اور شخص کی ناراضگی ہوتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اگر اپ کسی معاملے میں حق پر ہیں تو کسی سے بھی پہلے اپ کو اپنے رب کو راضی کرنا ہے اپنے لیے استخارہ کریں دعا پڑھیں رب سے مناجات کریں اور اس کے بعد وہ بات کریں کہ جو بات پہلے رب کے دربار میں پیش کر دی جاتی ہے پھر اس کا نتیجہ بھی رب پر ہی چھوڑا جاتا ہے زمین والے صرف اور صرف وسیلے بنتے ہیں رازق نہیں بنتے اور یہ ساری چیزیں انسان کو صبر بھی سکھاتی ہیں کہ کیسے اپنے معاملات کو ہینڈل کرنے کے لیے انسانوں پہ نہیں بلکہ رب ہی بھروسہ کرنا ہے وقت لگتا ہے کہیں نہ کہیں کچھ سہنا بھی پڑتا ہے تکالیف بھی اتی ہیں لیکن یہ دنیا ہے اور یہ زندگی ہے اور خوشی اور دکھ دونوں پیرالل ہیں اگر ایک جگہ سے کہیں پہ تکلیف ملتی ہے تو رب صبر کے نتیجے میں اتنا کچھ نواز دیتا ہے کہ وہ انسان کی اوقات بھی نہیں ہوتی اور یہاں پہ عاجزی اور منکسر المزاجی انسان کو اعلی بناتی ہے درحقیقت ہر چیز کا روٹ ایک ہی مین چیز سے ہو کر گزرتا ہے اور وہ ہے رب کی ذات اور اس کے بعد مخلص لوگوں سے مشورہ انسان اس سے مایوس نہیں ہوتا اور نہ ہی اللہ کی یہ مشیت ہے کہ وہ انسان کو کوشش کرنے کے باوجود خالی ہاتھ بھیج دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *