میں سمجھتی ہوں کہ عورت اور خصوصاً ماں ازخود اپنے اندر ایک بہت طاقت رکھتی ہے خواہ وہ خود کو کتنا ہی بے بس اور کمزور کیوں نہ سمجھے۔۔۔وہ کیسے اپنی اولاد میں ” بیدار روح” پھونک سکتی ہے؟اپنی لوریوں میں ، اپنی کہانیوں میں، بچے کے ساتھ کھیل اور وقت گزاری میں وہ نعرہ وہ وژن ، وہ نظریہ و افکار انڈیل سکتی ہے جس کا رجحان وہ خود رکھتی ہے۔۔۔اس کا شعور اس کا دین سے لگاؤ اس کی کوششیں بچوں میں کیسے passively منتقل ہوسکتی ہیں۔ بچہ آنکھ کھولتے ہی جس ماحول سے جس آواز سے مانوس ہوتا ہے وہ اس کی زندگی کی بنیاد رکھتا ہے۔پھر میں سمجھتی ہوں کہ عورت کو گھر سے نکال کر سارا دن کاروبارِ زندگی میں الجھائے رکھنا کہ وہ فیملی اور بچوں کو بوجھ سمجھنے لگے یا اپنے کیریئر کو لیکر اولاد کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ، یہ مائنڈ سیٹ امت میں پروموٹ کرنے کا مقصد ہی درحقیقت ماں اور بچے کے بیسک کنیکشن کو ختم کرکے تربیت کے اس بہت بڑے ادارے کو ختم کر دینا ہے۔میں عورت کے کیریئر کی مخالف نہیں، لیکن کیریئر کو اولین ترجیح بنا کر تربیت سے منہ موڑ لینے کا رجحان قابلِ تشویش ہے۔ نہ ریاست اور نہ کوئی ادارہ بچوں کی جذباتی و روحانی development کر سکتا ہے اور نہ وہ نظریہ راسخ کرسکتا ہے جو “امت واحدہ” کے لئے مطلوب ہے۔ اپنی ترجیحات کو طے کریں اور بآواز بلند اس کو دہرائیں۔ شعوری کوشش کریں اور مقاصد بلند رکھیں۔
