کسی بھی قسم کا “احساس محرومی” اگر اپنی ذات میں پل رہا ہے تو اسے ختم کرنا آپ نے خود ہے۔ کوئی بھی ایکسٹرنل فیکٹر آپ کے جذبات کو سمجھ نہیں سکتا ۔کبھی کھوجیں تو وہ احساس اکثر کسی اپنے کے ہی کہے گئے چند جملے ہوتے ہیں جو دل میں کہیں کھب سے جاتے ہیں ۔۔۔ اور دماغ انہیں قبول کرکے اسی طرز پہ سوچنے لگتا ہے یہاں تک کہ آپ اپنا امیج وہی بنا لیتے ہیں۔ اس احساس محرومی کو کوئی بھی نام دے لیں۔۔۔ لیکن کسی بھی فرد کے چند جملوں کو اپنے اوپر حاوی ہونے سے روک دینا آپ نے خود ہے۔ بچوں میں یہ احساس محرومی اکثر انجانے میں والدین کے ہاتھوں بھی پنپ جاتی ہے کبھی کسی لائق بہن بھائی کا دوسرے کا مذاق بنانا بھی یہ محرومی پیدا کر دیتا ہے۔ والدین کا اولاد میں تقابل کرنا بھی رگوں میں اتر جاتا ہے۔۔۔ایسی کتنی ہی بے شمار مثالیں ہیں کہ بچپن میں کہے گئے الفاظ ساری زندگی تازیانہ بن کر ضرب لگاتے ہیں اور اس کے ری ایکشن میں شخصیت پنپتی ہے۔ جس سٹیج پہ اس vicious cycle کی سمجھ آ جائے اسی وقت کھنگالئے۔۔۔ اپنے رویے کو جج کریں کہ یہ ٹراما آگے منتقل نہیں کرنا بلکہ اس “environment induced trauma” کو کھرچ دینا ہے۔ اپنی گرومنگ کریں اپنا امیج خود بنائیں۔ اللہ کا عبد کیسا ہوتا ہے اور میں کہاں ہوں اس کو ٹک مارک کریں اور دماغ کو شعوری میسج دیں۔ یہ روز کی پریکٹس کہہ لیں لیکن یہی وہ عمل ہے جس سے انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے۔ اور اسی کو ہیلنگ / سیلف اوویرنیس/ be kind to yourself/ اپنی ذات کے لئے مثبت ہونا کہتے ہیں۔ اولاد کے لئے مثبت جملوں کا استعمال اسی لئے ضروری ہےکہ ساری زندگی کی عمارت کی بنیاد ہے۔ن

فرض کریں کہ آپ کے والدین “ٹاکسک” ہیں۔ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ بچپن کے ٹراماز کے پیچھے بہت ہاتھ والدین کے کہے گئے “بے ساختہ جملوں/الفاظ” کا ہے۔۔۔ جیسے نکما ، کام چور، جاہل یا پھر کالا، موٹا وغیرہ ۔۔۔ اور ان الفاظ کی تکرار نے آپ کے اندر کا کانفیڈینس زیرو کر دیا ہے! تو کیا بستر مرگ پہ پڑ جائیں گے یا والدین سے ناطہ توڑ لیں گے؟ یا پھر اپنی موجودہ حالت کو بدلنے کے لئے اہتمام کرتے ہیں۔یہ self awareness کی طرف پہلا قدم ہے۔ اور دوسرا قدم اپنی ذہنی پریکٹس ہے اچھے الفاظ کی تکرار اور اپنی گرومنگ! یہ ایک لمبا اور طویل کام ہے ناممکن نہیں۔۔۔تیسری چیز جو اہم ہے وہ “والدین سے تعلقات” ہیں۔یقیناً رب نے احسان سے کندھے جھکائے رکھنے کا حکم ان سب بشری کمزوریوں اور خطاؤں کے ساتھ دیا ہے۔ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، ادب کرنا اور دعائے خیر کرتے رہنا ۔ والدین اپنے دور میں ایک ایک اولاد کو پالنے کے لئے اور ان کی خواہشات کی تکمیل کے کے لیے جس مشقت سے گزرتے ہیں اس کا بدلہ یقینا اولاد کبھی نہیں اتار سکتی اور جسمانی کمزوریاں جو عورت کے اوپر گزرتی ہیں اس کا احساس اور مداوا بھی کوئی اور نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ رب نے ماں کا درجہ تین گنا زیادہ رکھا ہے اور ان کی نافرمانی کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے یہاں پہ بات اہم یہ ہے کہ اپنی ذات کا ادراک ہونے کے بعد ہم ان کے ساتھ کیا رویہ اپناتے ہیں کہ ہم خود بھی دوبارہ سے اسی کیفیت کا شکار نہ ہوں اور والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں بھی کمی واقع نہ ہو ان کے ساتھ تعلق برقرار رہے اور اپنی ذہنی حالت اور سیف حالت بھی ممکن رہے۔ اس سلسلے میں اپنے والدین کے لیے ان کو مصروف کرنے کے لیے جو سرگرمیاں ہم ان کو اختیار کروا سکتے ہیں وہ ضرور کروائیں کہ رب نے ہم سے ہمارا امتحان لینا ہے کہ ہم نے اپنے وقت میں کیا کیا اور ان سے ان کا امتحان لینا ہے کہ انہوں نے کیا کیا اج کے دور میں پرنٹنگ کے اوپر والدین کو تو بہت نشانہ ستم بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کو بھلا دیا جاتا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں اور وہ بھی اپنے دور میں کسی نہ کسی ٹرامے کا شکار رہے ہوں گے جس کے نتیجے میں یہ اگے منتقل ہوا اور اگر نہیں بھی تب بھی ہمارا کام وہی ہے جو اللہ تعالی نے ہمیں سونپا ہے اور ہم اسی کے مکلف ہیں!! رب الرحمھما کما ربینی صغیرا.

جن ٹراماز نے انسان کو بچپن میں یا کبھی بھی تکلیف سے گزارا ہوتا ہے وہی اسے ان سے cope up کرنے والے پر )wings) عطا کر دیتے ہیں۔۔۔ اور وہ مسلسل جدوجہد ایسے مقام پہ پہنچا دیتی ہے کہ نارمل حالات میں آپ کبھی بھی وہ حاصل نہ کر پاتے!

دیکھا جائے تو ٹراما سروائیول سکل بھی ہے، ڈیفینس میکانزم بھی اور موٹیویشن بھی۔ ان سے کشید کیجیے اور زندگی کو خود ڈرائیو کیجئے۔ منزل آپ کی ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *