تربیت اولاد ایک فریضہ

اولاد کا نصیب ہمارے ہاتھ میں نہیں لیکن ان کی ذہن سازی اور تربیت ہمارے ہاتھ میں ہے!! اوائل عمری میں اپنے اردگرد مشاہدات سے بچے بہت کچھ سیکھتے اور سوال کرتے ہیں۔ ایسے میں والدین کا مختلف ٹاپکس پہ ڈسکشن کرنا، دین کے معاملات میں شوق بیدار کرنا ، گفتگو کے ذریعے ان کے اندر شعور پیدا کرنا ان کی الجھنوں کو پار لگانا ایک دقت طلب مگر بھر پور کام ہے جو بچپن ہی سے سوچ کو ڈائریکشن دیتا ہے۔ ۔۔ بے لگام ہونے کی بجائے سرا رب سے جوڑنے میں مدد دیتا ہے۔ والدین کی طرف سے کی گئی یہ محنت ایک اتنا بڑا توشہ ہے کہ فی الوقت اس کا اندازہ کرنا بھی آسان نہیں کہ آئیندہ نسلوں میں دین پہ عمل کرنے کی سوچ منتقل ہونا گویا یہ بیج آج بو رہے ہیں جس کی فصل تیار ہوگی تو علم ہو گا کہ کیا کھویا کیا پایا۔۔۔ آخر میں یہ کہ پانچ سال کے بچے سے بھی گفتگو کرتے ہوئے یہ نہ سویں کہ یہ تو بچہ ہے اور اس کی سمجھ سے بالاتر ہے یہ۔۔۔ نہیں ہر بچہ ایک مکمل انسان ہے اور اس کے لیول پہ آکے اللہ کا تعارف کروانا اور شوق محبت بیدار کرنا یقیناً ایک قابل ستائش کام ہے!والعصر ۔۔۔ ڈاکٹر فرحین راؤ